لڑکی نے اپنے ہی ٹیچر کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیا

جب عورت الزام لگاتی ہے تو زیادہ تر لوگ عورت کے الفاظ سے ہی مان جاتے ہیں کہ یہ سہی ہے، جب کہ مرد جب تک ثبوت نہ دے نہیں مانا جاتا۔

یہ انگلش کہ پروفیسر تھے، ان پر کسی لڑکی نے ہراسمنٹ کا الزام لگایا، جس کو ہماری سمجھدار عوام نے بنا ثبوت دیکھے ہی قبول کر لیا اور ان کا عوام میں جانا مشکل ہو گیا۔

کالج انتظامیہ کی کمیٹی نے انہیں بری بھی کر دیا لیکن لکھ کر اعلان نہیں کیا، جس پر انہوں نے دوبارا خط لکھا کہ مجھے لکھ کر دیا جاے کہ میں بے کسور ہوں۔ اس خط سے ہی پتا چلتا ہے کہ اس وجہ سے ان کی بیوی بھی انہیں چھوڑ گئیں۔

اس خط سے شاید ایک دن باد ہی انہوں نے خودکوشی کر لی اور کہا کہ اس کا فیصلہ اللہ کرے گا۔ اسی وجہ سے میں انہیں اس معاملے میں غلط یا سہی نہیں کہتا، کیونکہ وہ انہوں نے خود اللہ پر چھوڑا ہے۔

تفصیل

کچھ روز قبل میں نے اپنے ایم اے او کالج لاہور کے کولیگ پروفیسر محمد افضل کی خودکشی کا ذکر کیا تھا. اس کے خلاف سازش کے تحت ہراسمنٹ کا کیس بنایا گیا. انکوائری میں ہمارا دوست افضل بری ہوگیا. اس کا مطالبہ تھا کہ اسے باقاعدہ بریت کا خط دیا جائے اور اس کی عزت کی بحالی کے لیے کم از کم اس لڑکی کو کالج سے فارغ کردیا جائے جس نے افضل پر ہراسمنٹ کا الزام لگایا. بریت کا خط تو کیا ملنا تھا الٹا انتظامیہ نے اسے ڈرانا دھمکانا شروع کردیا کہ اس کے خلاف کسی بھی وقت کارروائی دوبارہ شروع کی جاسکتی ہے. اس دوران میں اس کی بیوی بھی اسے چھوڑ کر چلی گئی. وہ سخت ذہنی دباؤ کا شکار تھا. مرنے سے ایک دن پہلے اس نے کالج انتظامیہ سے آخری بار اپنے سارے حالات لکھ کر تحریری مطالبہ کیا کہ اس کی بریت کا خط جاری کیا جائے اور طالبہ کو کالج سے نکالا جائے. اس نے آخر میں یہ بھی لکھا کہ ” کم از کم میرے مرنے کے بعد میری ماں کو میری بریت کے بارے میں خط لکھ دیا جائے تاکہ اسے اطمینان ہوجائے کہ وہ کسی بدکار کی ماں نہیں” ( خط کا عکس نیچے موجود ہے) محمد افضل کہ جس نے کپڑے سی کر تعلیم حاصل کی اور کالج میں انگریزی کا پروفیسر بنا نہایت محنتی اور شریف انسان تھا. اس کی شرافت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ اس نے مرنے سے پہلے والے خط میں بھی طالبہ کانام تک نہیں لکھا . عزیز دوستو! افضل کے لیے آواز اٹھائیں. اس کی آخری خواہش تھی کہ کالج اس کی ماں کو ایک خط لکھ دے جس سے ماں کو اطمینان ہوجائے. اس بے گناہی کے خط کے لیے آواز بلند کریں. ایک ماں کے اطمینان کے لیے آواز اٹھائیں. آواز اٹھائیں کہ تحقیقات ہوں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس ہراسمنٹ کی درخواست کے پیچھے کون ہے. کون ہے جو بریت کے خط کے راستے میں رکاوٹ ہے وہ کون ہے جس نے ایک بوڑھی ماں سے اس کا سب ہونہار بیٹا چھین لیا

نوٹ: ایک زمہ دار لکھاری ہمیشہ ہر پہلو پر غور کرتا ہے، اسی لیے یہ بات یاد رکھیں کہ ان کے خودکشی کے ایکٹ کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں